عشق
یہ لفظ عربی سے ہے اور عشق نہیں کہتے
عشقا کہتے ہیں
عشقا ایک بیل ہوتی ہے اکثر گھنے جنگلات میں پائ جاتی ہے ۔ یہ بیل کسی ایسے درخت کو ڈھوںڈتی ہے جو مکمل ہرا بھرا اور جوبن پر ہو ۔۔۔ یہ بیل اس درخت کو نیچے سے لگ جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اس درخت کے گرد نیچے سے اوپر تک تقریباً قابض ہو جاتی ۔۔اب درخت بے چارہ روز روز کمزور ہوتا جاتا ہے باہر سے تنا سڑ نا شروع ہوجاتا ۔۔پتے جھڑنے لگ جاتے ۔۔۔شاخیں ٹوٹ کر گرنے لگتیں اور دیکھتے دیکھتے ہی درخت کا کچھ نہیں رہتا کوئ نہیں کہہ سکتا کہ یہ وہی درخت تھا جو ابھی چند دن پہلے اتنا ہرا بھرا تھا ۔۔۔۔۔ بس جب عشقا بیل یہ حال۔
دیکھتی درخت کا تو اس درخت کو خود آرام سے چھوڑ دیتی ۔۔
.اب ایک معجزه ہوتا
وہ سڑا ہوا جھڑا ہوا درخت پھر سے کو نپلیں نکالنے لگتا اور اس میں زندگی دوڑنے لگتی ۔۔. آس کے تنے پر خوبصورت اور تازہ چھال آجاتی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ۔۔۔
بس عشق کی بھی یہی کہانی ہے یہ انسان کے ساتھ عشقا بیل کی طرح چمٹ جاتا اور اسکا ککھ نہیں چھوڑتا ۔۔۔ لیکن پھر یہی انسان ایک مضبوط محبت والا خدمت والا فرمانبردار بندہ بن کر دوبارہ زندہ ہوتا
بس عشق کی بھی یہی کہانی ہے یہ انسان کے ساتھ عشقا بیل کی طرح چمٹ جاتا اور اسکا ککھ نہیں چھوڑتا ۔۔۔ لیکن پھر یہی انسان ایک مضبوط محبت والا خدمت والا فرمانبردار بندہ بن کر دوبارہ زندہ ہوتا
قاف، سین، میم کھا کے کہتا ہوں
عین، شین، قاف میں رسوائی ہے
Comments
Post a Comment